سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
بہت عالم کرے گا غم ہمارا
پڑھیں گے شعر رو رو لوگ بیٹھے
رہے گا دیر تک ماتم ہمارا
نہیں ہے مرجع آدم اگر خاک
کدھر جاتا ہے قد خم ہمارا
زمین و آسماں زیر و زبر ہے
نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا
کسو کے بال درہم دیکھتے میرؔ
ہوا ہے کام دل برہم ہمارا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |