سخن میں کامرانی کر رہا ہوں
سخن میں کامرانی کر رہا ہوں
ضعیفی میں جوانی کر رہا ہوں
غرور نقش اول پیش کیا جائے
میں کار نقش ثانی کر رہا ہوں
نہ سمجھے گا کوئی مجھ کو پیمبر
عبث دعوائے ثانی کر رہا ہوں
اجل تو ہی سبک کر مجھ کو آ کر
دلوں پر میں گرانی کر رہا ہوں
دل معشوق پتھر ہے تو ہووے
میں اس کو پانی پانی کر رہا ہوں
تصور ہے کہاں مجھ پاس تیرا
میں خود باتیں زبانی کر رہا ہوں
نہیں پاس اس کے بیٹھا بے سبب میں
گلوں کی پاسبانی کر رہا ہوں
کبھی تو بھی تو میرے خواب میں آ
میں تیری یاد جانی کر رہا ہوں
فرشتے کا گزر اس تک نہیں ہے
میں آپھی بد گمانی کر رہا ہوں
نہیں اے مصحفیؔ فہمیدہ کوئی
عبث جادو بیانی کر رہا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |