سخیؔ سے چھوٹ کر جائیں گے گھر آپ
سخیؔ سے چھوٹ کر جائیں گے گھر آپ
اجی کچھ خیر بھی ہے ہیں کدھر آپ
وہ عاشق ہیں کہ مرنے پر ہمارے
کریں گے یاد ہم کو عمر بھر آپ
پری سمجھیں پری، حوریں کہیں حور
ہوئے کس نور کے پیدا بشر آپ
نہ عاشق ہیں زمانہ میں نہ معشوق
ادھر ہم رہ گئے ہیں اور ادھر آپ
دکھائیں گے ہم اپنی لاغری بھی
ابھی تو دیکھیے اپنی کمر آپ
مرے نالے اگر سننے کا ہے شوق
تو صاحب ہاتھ رکھیے کان پر آپ
رسائی اس کے زلفوں تک نہ ہوگی
سخیؔ بے فائدہ ماریں نہ سر آپ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |