سدا فکر روزی ہے تا زندگی ہے

سدا فکر روزی ہے تا زندگی ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

سدا فکر روزی ہے تا زندگی ہے
جو جینا یہی ہے تو کیا زندگی ہے

چھپا منہ نہ اپنا کہ مر جائیں گے ہم
پری رو ترا دیکھنا زندگی ہے

مجھے خضر سے دو نہ جینے میں نسبت
کہ اس کی بہ آب بقا زندگی ہے

تری بے وفائی کا شکوہ کریں کیا
خود اپنی ہی یاں بے وفا زندگی ہے

اجل کے سوا اس کی دارو نہیں کچھ
عجب درد دور از دوا زندگی ہے

تو گلشن میں رہ گل یہ کہتا تھا اس سے
ترے دم سے میری صبا زندگی ہے

جنہوں نے کیا ہے دل آئینہ اپنا
انہیں لوگوں کی با صفا زندگی ہے

کہاں کی ہوا تک رہا ہے تو ناداں
کہ پل مارتے یاں ہوا زندگی ہے

نہ ہم مفت مرتے ہیں کوئے بتاں میں
کہ مرنے سے یاں مدعا زندگی ہے

تو اے مصحفیؔ گر ہے عاشق فنا ہو
کہ عاشق کو بعد از فنا زندگی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse