سراسر خجلت و شرمندگی ہے
سراسر خجلت و شرمندگی ہے
ہماری بھی بھلا کیا زندگی ہے
سدا کوئی رہا ہے نے رہے گا
اسی کی ذات کو پائندگی ہے
خیال خوب رویاں کیونکے چھوٹے
طبیعت میں مری خواہندگی ہے
نظر اپنی بھی واں جا ہی پڑے ہے
جہاں آرائش و زیبندگی ہے
غزل خوانی کر اب اے مصحفیؔ ترک
ہوا قد خم یہ وقت بندگی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |