سرور افزا ہوئی آخر شراب آہستہ آہستہ
سرور افزا ہوئی آخر شراب آہستہ آہستہ
ہوا وہ بزم مے میں بے حجاب آہستہ آہستہ
رخ روشن سے یوں اٹھی نقاب آہستہ آہستہ
کہ جیسے ہو طلوع آفتاب آہستہ آہستہ
کیا جب شوق نے اس سے خطاب آہستہ آہستہ
حیا نے بھی دیا آخر جواب آہستہ آہستہ
وہ مستی خیز نظریں رفتہ رفتہ لے اڑیں مجھ کو
کیا کاشانۂ دل کو خراب آہستہ آہستہ
بڑھا ہنگامۂ شوق اس قدر بزم حریفاں میں
کہ رخصت ہو گیا اس کا حجاب آہستہ آہستہ
کیا کامل ہمیں اک عمر میں سوز محبت نے
ہوئے ہم آتش غم سے کباب آہستہ آہستہ
عبث تھا ضبط کا دعویٰ ستم اس کے ستم نکلے
نگاہیں ہو گئیں آخر پر آب آہستہ آہستہ
دبستان وفا میں عمر بھر کی صفحہ گردانی
سمجھ میں آئی الفت کی کتاب آہستہ آہستہ
بقدر شوق اسے تاب طپیدہ تھی کہاں قاتل
کیا بسمل نے تیرے اضطراب آہستہ آہستہ
بلا ہیں شاہدان شہر وحشتؔ مے پرستی میں
ہوا میں ان کی صحبت میں خراب آہستہ آہستہ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |