سر اپنے کو تجھ پر فدا کر چکے ہم
سر اپنے کو تجھ پر فدا کر چکے ہم
حق آشنائی ادا کر چکے ہم
تو سمجھے نہ سمجھے ہمیں ساتھ تیرے
جو کرنی تھی اے بے وفا کر چکے ہم
خدا سے نہیں کام اب ہم کو یارو
کہ اک بت کو اپنا خدا کر چکے ہم
میں پوچھا مرا کام کس دن کروگے
تو یوں منہ پھرا کر کہا کر چکے ہم
گھرس لے تو اب ان کو چیرے میں اپنے
تماشائے زلف دوتا کر چکے ہم
تو جاوے نہ جاوے جو کرنی تھی ہم کو
سماجت تری اے صبا کر چکے ہم
نہ بولیں گے پیارے تری ہی سنیں گے
تو دشنام دے اب دعا کر چکے ہم
کبھو کام اپنا کسی سے نہ نکلا
بہت خلق کی التجا کر چکے ہم
لڑی مصحفیؔ آنکھ جس سے کہ اپنی
پر آخر اسے آشنا کر چکے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |