سلامت رہیں دل میں گھر کرنے والے
سلامت رہیں دل میں گھر کرنے والے
اس اجڑے مکاں میں بسر کرنے والے
گلے پر چھری کیوں نہیں پھیر دیتے
اسیروں کو بے بال و پر کرنے والے
اندھیرے اجالے کہیں تو ملیں گے
وطن سے ہمیں در بدر کرنے والے
گریباں میں منہ ڈال کر خود تو دیکھیں
برائی پہ میری نظر کرنے والے
اس آئینہ خانے میں کیا سر اٹھاتے
حقیقت پر اپنی نظر کرنے والے
بہار دو روزہ سے دل کیا بہلتا
خبر کر چکے تھے خبر کرنے والے
کھڑے ہیں دوراہے پہ دیر و حرم کے
تری جستجو میں سفر کرنے والے
سر شام گل ہو گئی شمع بالیں
سلامت ہیں اب تک سحر کرنے والے
کجا صحن عالم کجا کنج مرقد
بسر کر رہے ہیں بسر کرنے والے
یگانہؔ وہی فاتح لکھنؤ ہیں
دل سنگ و آہن میں گھر کرنے والے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |