سمجھ گھر یار کا میں شہ نشین دل کو دھوتا ہوں
سمجھ گھر یار کا میں شہ نشین دل کو دھوتا ہوں
کہیں ہیں لوگ دیوانے کہ دیوانہ ہوں روتا ہوں
بجھائے اشک یہ خوں کے جو فوارے اچھلتے ہیں
مژہ سے یار کے لے نشتر آنکھوں میں چبھوتا ہوں
مدد اے خضر گریہ غرق کریو ناؤ دل آج ہی
یہ ہے ڈبوانے والا میں اسے پہلے ڈبوتا ہوں
بت سنگین دل کی دیکھ تصویر آنکھیں پتھرائیں
ٹھٹک ہوں نقش قالیں سا نہ روتا ہوں نہ سوتا ہوں
میں کوئے میکشان و مہوشاں کے متصل پہنچا
خبردار اے حریفو اب حواس و ہوش کھوتا ہوں
مبادا میرے گل رو کا گل رخسار مرجھاوے
پھوار اے اظفریؔ دے آنسوؤں کی میں بھگوتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |