سنا کر حال قسمت آزما کر لوٹ آئے ہیں
سنا کر حال قسمت آزما کر لوٹ آئے ہیں
انہیں کچھ اور بیگانہ بنا کر لوٹ آئے ہیں
پھر اک ٹوٹا ہوا رشتہ پھر اک اجڑی ہوئی دنیا
پھر اک دلچسپ افسانہ سنا کر لوٹ آئے ہیں
فریب آرزو اب تو نہ دے اے مرگ مایوسی
ہم امیدوں کی اک دنیا لٹا کر لوٹ آئے ہیں
خدا شاہد ہے اب تو ان سا بھی کوئی نہیں ملتا
بزعم خویش ان کو آزما کر لوٹ آئے ہیں
بچھے جاتے ہیں یا رب کیوں کسی کافر کے قدموں میں
وہ سجدے جو در کعبہ پہ جا کر لوٹ آئے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |