سنا ہم کو آتے جو اندر سے باہر
سنا ہم کو آتے جو اندر سے باہر
پھرے الٹے پیروں باہر سے باہر
کڑی میں نہ دے ساتھ یار دلی تک
شرر چوٹ کھا کر ہو پتھر سے باہر
یوں ہی کالعدم ہم میان لحد تھے
مٹایا نشاں اس پہ ٹھوکر سے باہر
نہ کر ہرزہ گردی جو ذی آبرو ہے
نکلتا نہیں آئنہ گھر سے باہر
جناں سے ہوئی مدت آدم کو نکلے
وطن سے ہوں میں زندگی بھر سے باہر
وہ محروم دولت ہوں برگشتہ قسمت
اڑے خاک گھر میں جو ہو برسے باہر
مٹے گردش بخت کیا لاغروں کی
نہ ہو کاہ گرداب چکر سے باہر
لڑاتے جو ہو شادؔ سے گھر میں آنکھیں
نظر ڈالو ہم پر بھی تیور سے باہر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |