سنا ہے کوچ تو ان کا پر اس کو کیا کہیے
سنا ہے کوچ تو ان کا پر اس کو کیا کہیے
زبان خلق کو نقارۂ خدا کہیے
مسی لگا کے سیاہی سے کیوں ڈراتے ہو
اندھیری راتوں کا ہم سے تو ماجرا کہیے
ہزار راتیں بھی گزریں یہی کہانی ہو
تمام کیجیے اس کو نہ کچھ سوا کہیے
ہوا ہے عشق میں خاصان حق کا رنگ سفید
یہ قتل عام نہیں شوخئ حنا کہیے
تراب پائے حسینان لکھنؤ ہے یہ
یہ خاکسار ہے اخترؔ کو نقش پا کہیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |