سنگ در دیکھ کے سر یاد آیا
سنگ در دیکھ کے سر یاد آیا
کوئی دیوانہ مگر یاد آیا
پھر وہ انداز نظر یاد آیا
چاک دل تا بہ جگر یاد آیا
ذوق ارباب نظر یاد آیا
سجدہ بے منت سر یاد آیا
ہر تبسم پہ یہ کھاتا ہوں فریب
کہ انہیں دیدۂ تر یاد آیا
پھر ترا نقش قدم ہے درکار
سجدۂ راہ گزر یاد آیا
جمع کرتا ہوں غبار رہ دوست
سر شوریدہ مگر یاد آیا
ہائے وہ معرکۂ ناوک ناز
دل بچایا تو جگر یاد آیا
آئینہ اب نہیں دیکھا جاتا
میں بعنوان دگر یاد آیا
درد کو پھر ہے مرے دل کی تلاش
خانہ برباد کو گھر یاد آیا
اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ
کیا کروگے وہ اگر یاد آیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |