سن رکھ او خاک میں عاشق کو ملانے والے

سن رکھ او خاک میں عاشق کو ملانے والے
by عبدالرحمان احسان دہلوی

سن رکھ او خاک میں عاشق کو ملانے والے
عرش اعظم کے یہ نالے ہیں بلانے والے

یہ صدا سنتے ہیں اس کوچہ کے جانے والے
جان کر جان نہ کھو کون ہے آنے والے

چین تجھ کو بھی نہ ہو مجھ کو ستانے والے
تو بھی ٹھنڈا نہ رہے جی کے جلانے والے

کب ہیں اس دل سے بتاں ہاتھ اٹھانے والے
یہ وہ کافر ہیں کہ مسجد کے ہیں ڈھانے والے

جنگ ہی گر تجھے منظور ہے پھر آنکھ لڑا
یہ بھی اک جنگ ہے او آنکھ لڑانے والے

کی تو عیار سی سازش ہے ولے غنچہ دہن
چٹکیوں میں ہیں یہ جوبن کے اڑانے والے

ان کے ہنسنے پہ نہ جا ان کے ہنسانے سے نہ ہنس
تیرے ہنسنے پہ جو ہنستے ہیں ہنسانے والے

بن بلائے ترے آ کر تجھے بہکاتے ہیں
سخت نا خواندہ ہیں یہ تجھ کو پڑھانے والے

اشک خونیں کی ہوں میں سیل میں ڈوبا رہتا
یہ میرا رنگ ہے او پان چبانے والے

یوں گجر صبح کا جلدی سے بجے وصل کی رات
ارے بے رحم ارے دل کے ستانے والے

گزری جو مجھ پہ سو گزری ہے نہ گزری تجھ پر
گھڑی گھڑیال کی گھڑیال بجانے والے

کیوں نہ ان نالوں کو میں پاے بہ زنجیر رکھوں
اے جنوں کون ہیں یہ غل کے مچانے والے

جب کہا میں نے کہ سن حال کہا طعن سے یہ
تم سلامت رہو احوال سنانے والے

پاؤں کو ہاتھ لگایا تو لگا کہنے سرک
تجھ کو قربان کروں ہاتھ لگانے والے

مطلع مطلع احساںؔ سے تو ہو رشک قمر
تجھ پہ عاشق ہوئے پیغام کے لانے والے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse