سوائے رحمت رب کچھ نہیں ہے
سوائے رحمت رب کچھ نہیں ہے
بہت کچھ تھا مگر اب کچھ نہیں ہے
جہاں میں ہوں مگر کیا جانئے کیوں
مجھے دنیا سے مطلب کچھ نہیں ہے
یہ وقت نزع ہے کیا نذر دوں میں
اب آئے ہو یہاں جب کچھ نہیں ہے
اندھیرے میں وہ سوجھی یہ نہ سوجھی
تری شب ہے مری شب کچھ نہیں ہے
فقط تقدیر کی کایا پلٹ ہے
مناسب اور انسب کچھ نہیں ہے
نہ پوچھو دل سے اس کی راہ کا حال
سوائے عشق مذہب کچھ نہیں ہے
نہ ہو گر شام ہجراں کے برابر
تو بہر وصل اک شب کچھ نہیں ہے
پس دل اب کہاں آبادیٔ دہر
جو سب کچھ تھا وہی سب کچھ نہیں ہے
خدا کا واسطہ کیا دوں اسے میں
جہاں میں جس کا مذہب کچھ نہیں ہے
چمن تھا جب چمن تھا آشیاں بھی
وہیں تھا میں جہاں اب کچھ نہیں ہے
محصل نظم ثاقبؔ کا نہ پوچھو
فقط لفظیں ہیں مطلب کچھ نہیں ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |