سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے
سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے
مجال دید پہ بجلی گرائی جاتی ہے
خدا بخیر کرے ضبط شوق کا انجام
نقاب میری نظر سے اٹھائی جاتی ہے
اسی کو جلوۂ ایمان عشق کہتے ہیں
ہجوم یاس میں بھی آس پائی جاتی ہے
اب آ گئے ہو تو اور اک ذرا ٹھہر جاؤ
ابھی ابھی مری میت اٹھائی جاتی ہے
مرے قیاس کو اپنی تلاش میں کھو کر
مرے حواس کو دنیا دکھائی جاتی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |