سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے

سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے
by فانی بدایونی
299775سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہےفانی بدایونی

سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے
مجال دید پہ بجلی گرائی جاتی ہے

خدا بخیر کرے ضبط شوق کا انجام
نقاب میری نظر سے اٹھائی جاتی ہے

اسی کو جلوۂ ایمان عشق کہتے ہیں
ہجوم یاس میں بھی آس پائی جاتی ہے

اب آ گئے ہو تو اور اک ذرا ٹھہر جاؤ
ابھی ابھی مری میت اٹھائی جاتی ہے

مرے قیاس کو اپنی تلاش میں کھو کر
مرے حواس کو دنیا دکھائی جاتی ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.