سولی چڑھے جو یار کے قد پر فدا نہ ہو

سولی چڑھے جو یار کے قد پر فدا نہ ہو
by امداد امام اثر
317865سولی چڑھے جو یار کے قد پر فدا نہ ہوامداد امام اثر

سولی چڑھے جو یار کے قد پر فدا نہ ہو
پھانسی چڑھے جو قیدی زلف رسا نہ ہو

مضموں وہ کیا جو لذت غم سے بھرا نہ ہو
شاعر وہ کیا کلام میں جس کے مزا نہ ہو

بد نام میرے واسطے وہ دل ربا نہ ہو
یارب عدو کے ہاتھ سے میری قضا نہ ہو

جب اپنی کوئی بات بغیر از دعا نہ ہو
دشمن کے کہنے سننے سے ناداں خفا نہ ہو

ہو وہ اگر خلاف موافق ہوا نہ ہو
ڈوبے وہ ناؤ جس کا خدا ناخدا نہ ہو

دلدادگی کو حسن خداداد کم نہیں
ناصح اگر نہیں ہے بتوں میں وفا نہ ہو

روز جزا وہ شوخ ملے ہم کو اے خدا
اس کے سوا کچھ اور عدو کی سزا نہ ہو

مشکل کا سامنا ہو تو ہمت نہ ہاریے
ہمت ہے شرط صاحب ہمت سے کیا نہ ہو

بت آذران وقت بنائیں اگر ہزار
تیرا نظیر ایک بھی نام خدا نہ ہو

دھوکے میں میرے قتل کیا اس نے غیر کو
قاتل کا کیا قصور جو میری قضا نہ ہو

سچ ہے کہ ہر کمال کو دنیا میں ہے زوال
ایسا بڑا ہے کون جو آخر گھٹا نہ ہو

روز جزا سے واعظ ناداں اسے ڈرا
صدمہ شب فراق کا جس نے سہا نہ ہو

ملتا نہیں پتا ترے چھلے کے چور کا
اے گل بدن یہ شوخی دزد حنا نہ ہو

تیرا گلہ نہ غیر کا شکوہ زباں پہ ہے
کرتا ہوں عرض حال ستم گر خفا نہ ہو

پاتے ہیں کج سرشت جزا اپنے فعل کی
کہتی ہے راستی کہ برے کا بھلا نہ ہو

بلبل نہ پھول خندۂ صبح بہار پر
ناداں کہیں یہ خندۂ دنداں نما نہ ہو

تیری زباں پہ آئے اگر حرف التیام
کیوں کر شکست دل کے لئے مومیا نہ ہو

غافل مریض عشق کی تو نے خبر نہ لی
تھا غیر اس کا حال وہ اب تک ہو یا نہ ہو

شرمندہ اے کریم نہ ہوں عاشقوں میں ہم
پرسش ہمارے قتل کی روز جزا نہ ہو

کرتا ہے اے اثرؔ دل خوں گشتہ کا گلہ
عاشق وہ کیا کہ خستۂ تیغ جفا نہ ہو


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.