سوچ میں تیرے سنا رات جو کھٹکا پٹکا
سوچ میں تیرے سنا رات جو کھٹکا پٹکا
سر کو تکیے سے اٹھا پٹی پہ دے دے پٹکا
تو نے گر کنگھی جو کاکل کو پکڑ کر جھٹکا
دل پڑا پھرتا ہے سر مارتا بھولا بھٹکا
لخت دل آ سر مژگاں پہ لٹکتے ہیں پڑے
تیری الفت نے بھلا سانگ دکھایا نٹ کا
جب نہ تب بوسے پہ ہٹتے ہو کہ دوں گا نہ کبھی
مان کر یہ نہ مری جان پھر ایسی ہٹ کا
کیوں تری چال لٹک دیکھ کے دل لٹکے ہیں
کچھ تو ہم کو بھی بتا کس سے یہ سیکھا لٹکا
نٹ کھٹی دیکھ تری میں تو اچنبھے میں رہا
دل جھپٹ ہاتھ سے جھٹ راگ سنایا کھٹکا
گھر بسے بول بھی کچھ کیا ہے خرابی ٹھانی
کب تلک ہم سے پھرے گا یوں ہی پھٹکا پھٹکا
دل گم گشتہ کی ہر اک سے میں کرتا ہوں تلاش
چور جو تھا وہی آنکھوں کو چرا کر سٹکا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |