سچ اگر پوچھو تو نا پیدا ہے یک رو آشنا
سچ اگر پوچھو تو نا پیدا ہے یک رو آشنا
سارے عالم میں جو ہوں شاید تو یک دو آشنا
حاضر و غائب ہو یکساں ظاہر و باطن ہو صاف
اس طرح کا کم نظر آیا ہے یکسو آشنا
ہم وہ مخلص ہیں کہ آنکھیں دیکھتے گزری ہے عمر
جی نکل جاوے جو ہو ہم سے کج ابرو آشنا
سارے عالم سے کروں میں ترک رسم دوستی
مجھ سے ہووے اے مرے دشمن اگر تو آشنا
کس کے کوچے میں تو ہو نکلی تھی ہاں سچ کہہ نسیم
تجھ میں جو بو ہے سو ہے مدت سے یہ بو آشنا
جاں بہ لب ہوں میں تو ان یاروں کی خوش خلقی کو دیکھ
ہے معاذ اللہ جو ہو صحبت میں بد خو آشنا
ایک بھی ہم نے نہ دیکھا دوست حاتمؔ بعد مرگ
ہے تکلف بر طرف کو یار اور کو آشنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |