سچ ہے کہ آہ سرد مری بے اثر نہیں
سچ ہے کہ آہ سرد مری بے اثر نہیں
پتھر کو جھاڑیے تو نکلتا شرر نہیں
اوروں کو ہو تو ہو ہمیں مرنے سے ڈر نہیں
خط لے کے ہم ہی جاتے ہیں گر نامہ بر نہیں
ہر چند مجھ میں کوئی کمال و ہنر نہیں
ہر چرخ کینہ دوز سے میں بے خطر نہیں
اٹھتا قدم جو آگے کو اب راہبر نہیں
پیچھے تو چھوڑ آئے کہیں اس کا گھر نہیں
دل لے کے دے وہ بوسہ یہ ہے مقتضائے سن
قیمت ہے اس کی کیا اسے اب تک خبر نہیں
بے اختیار روتے ہیں پڑھ پڑھ کے مرثیے
الفت میں تیری گر یہ مرا پردہ در نہیں
عرش بریں پہ جا کے رکیں شوق کے قدم
عارفؔ یہ آشیانۂ خیر البشر نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |