سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے

سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے
by مضطر خیرآبادی

سہیں کب تک جفائیں بے وفائی دیکھنے والے
کہاں تک جان پر کھیلیں جدائی دیکھنے والے

ترے بیمار غم کی اب تو نبضیں بھی نہیں ملتیں
کف افسوس ملتے ہیں کلائی دیکھنے والے

خدا سے کیوں نہ مانگیں کیوں کریں منت امیروں کی
یہ کیا دیں گے کسی کو آنہ پائی دیکھنے والے

بتوں کی چاہ بنتی ہے سبب عشق الٰہی کا
خدا کو دیکھ لیتے ہیں خدائی دیکھنے والے

مہینوں بھائی بندوں نے مرا ماتم کیا مضطرؔ
مہینوں روئے خالی چارپائی دیکھنے والے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse