سہے غم پئے رفتگاں کیسے کیسے

سہے غم پئے رفتگاں کیسے کیسے
by واجد علی شاہ

سہے غم پئے رفتگاں کیسے کیسے
مرے کھو گئے کارواں کیسے کیسے

وہ چتون وہ ابرو وہ قد یاد سب ہے
سناؤں میں گزرے بیاں کیسے کیسے

مرے داغ سوزاں کا مضموں نہ سوچو
جلے کہہ کے آتش‌ زباں کیسے کیسے

رہا عشق سے نام مجنوں کا ورنہ
تہ خاک ہیں بے نشاں کیسے کیسے

شب وصل میں مہ کو عریاں کریں گے
عیاں ہوں گے راز نہاں کیسے کیسے

کمر یار کی ناتوانی میں ڈھونڈی
توہم ہوئے درمیاں کیسے کیسے

کلیجے میں اخترؔ پھپھولے پڑے ہیں
مرے اٹھ گئے قدرداں کیسے کیسے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse