سیاحت ظریف

سیاحت ظریف
by ظریف لکھنوی
319692سیاحت ظریفظریف لکھنوی

کچھ ریل گھر کا حال کروں مختصر بیاں
وہ نو بجے کا وقت وہ ہنگامے کا سماں
قلیوں کا لاد لاد کے لانا وہ پیٹیاں
بجنا وہ گھنٹیوں کا وہ انجن کی سیٹیاں
گڑ بڑ مسافروں کی بھی اک یادگار تھی
عورت پہ مرد مرد پہ عورت سوار تھی
القصہ ریل جب سوئے جھانسی رواں ہوئی
اور شکل لکھنؤ کی نظر سے نہاں ہوئی
جو تھرڈ میں تھے ان کے لیے بھی اماں ہوئی
پنجوں پہ دھکے کھا کے جگہ کچھ عیاں ہوئی
تھا تیسرا پہر نہ بخوبی ہوئی تھی شام
چھوٹا جو ساتھ ریل کا ہم سب سے والسلام
یعنی سواد بمبئی اس دم نظر پڑا
ٹھہری ٹرین اک ایک مسافر اتر پڑا
کچھ بمبئی کا حال کروں مختصر بیاں
چوڑی سڑک دو رویہ کئی منزلے مکاں
ہر سو ملوں کا شہر میں پھیلا ہوا دھواں
ہر ایک مالے کے لیے دس بیس سیڑھیاں
کمرہ ہر ایک کاٹھ کا پنجرہ سلا ہوا
ہر اک مکیں پھندیت ہو جیسے پلا ہوا
بیٹھے اٹھے وہیں پہ وہیں کھانا بھی پکائے
منہ ہاتھ دھوئے چاہے وہیں بیٹھ کر نہائے
سونے کے واسطے نہ مسہری اگر بچھائے
پھیلیں نہ پیر گنڈلی جو مارے تو ہاں سمائے
ایسی جگہ پہ گر کہیں رہنے کو جا ملے
انساں کو زندگی میں لحد کا مزا ملے
بائیس فروری کی سحر جب میاں ہوئی
اٹھے سویرے جیسے ہی ظلمت نہاں ہوئی
اسباب باندھ بوندھ کے ہشیار ہو گئے
گاڑی بلائی چلنے کو تیار ہو گئے
پہنچا ہر اک جہاز پر جس طرح ہو سکا
لیکن کہیں پہ ملتی نہ تھی بیٹھنے کی جا
اسباب چار سمت تھا پھیلا پڑا ہوا
سنتا نہ تھا کوئی جو کوئی تھا پکارتا
برقع میں عورتیں تھیں مگر غیر حال تھا
ریلا وہ تھا قدم کا ٹھہرنا محال تھا
کچھ کھنڈ میں بھرے گئے اسباب کی طرح
کچھ بے قرار ہو گئے سیماب کی طرح
اک جا پہ کچھ سما جو گئے آپ کی طرح
کچھ گھومتے ہی رہ گئے گرداب کی طرح
موجوں کا اٹھنا اور وہ تلاطم کہ الحذر
بے خود ہوئے یہ سب کہ نہ اپنی رہی خبر
قے سے مسافروں کا بہت غیر حال تھا
چکر وہ تھا کہ سر کا اٹھانا محال تھا
تھیں جن کے ساتھ عورتیں ان کا نہ پوچھو حال
لے جانا اور لانا تھا اک جان کا وبال
سیڑھی سے ان کو لے کے اترنا تھا اک محال
بے پردگی کا دھیان نہ پردے کا تھا خیال
یہ پردہ داری جان کے اوپر عذاب تھی
ان عورتوں سے مردوں کی مٹی خراب تھی
کہتی تھی کوئی لو مرا برقع اٹک گیا
ہے ہے نیا تھا تین جگہ سے مسک گیا
صاحب سنبھالو سر سے دوپٹہ کھسک گیا
لو پائنچہ الجھ گیا مقنع سرک گیا
لو بیوی پان دان کا ڈھکنا بھی گر گیا
آفت پڑے جہاز پہ کتھا بھی گر گیا
توبہ یہ میرے بچے کا بٹوہ بھی گر گیا
پہنچوں گی اب کی گرچہ اصل خیر سے میں گھر
بیوی امیٹھے کان کروں گی نہ پھر سفر
وہ کون لوگ ہیں کہ جو آتے ہیں بار بار
سچ ہے بوا کہ گھر ہے غنیمت ہزار بار


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.