سید سے آج حضرت واعظ نے یہ کہا
سید سے آج حضرت واعظ نے یہ کہا
چرچا ہے جا بجا ترے حال تباہ کا
سمجھا ہے تو نے نیچر و تدبیر کو خدا
دل میں ذرا اثر نہ رہا لا الہ کا
ہو تجھ سے ترک صوم و صلوٰۃ و زکوٰۃ و حج
کچھ ڈر نہیں جناب رسالت پناہ کا
شیطان نے دکھا کے جمال عروس دہر
بندہ بنا دیا ہے تجھے حب جاہ کا
اس نے دیا جواب کہ مذہب ہو یا رواج
راحت میں جو مخل ہو وہ کانٹا ہے راہ کا
افسوس ہے کہ آپ ہیں دنیا سے بے خبر
کیا جانیے جو رنگ ہے شام و پگاہ کا
یورپ کا پیش آئے اگر آپ کو سفر
گزرے نظر سے حال رعایا و شاہ کا
وہ آب و تاب و شوکت ایوان خسروی
وہ محکموں کی شان وہ جلوہ سپاہ کا
آئے نظر علوم جدیدہ کی روشنی
جس سے خجل ہو نور رخ مہر و ماہ کا
دعوت کسی امیر کے گھر میں ہو آپ کی
کمسن مسوں سے ذکر ہو الفت کا چاہ کا
نوخیز دل فریب گل اندام نازنیں
عارض پہ جن کے بار ہو دامن نگاہ کا
رکئے اگر تو ہنس کے کہے اک بت حسیں
سن مولوی یہ بات نہیں ہے گناہ کا
اس وقت قبلہ جھک کے کروں آپ کو سلام
پھر نام بھی حضور جو لیں خانقاہ کا
پتلون و کوٹ و بنگلہ و بسکٹ کی دھن بندھے
سودا جناب کو بھی ہو ترکی کلاہ کا
منبر پہ یوں تو بیٹھ کے گوشے میں اے جناب
سب جانتے ہیں وعظ ثواب و گناہ کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |