سیر دنیا سے غرض تھی محو دنیا کر دیا
سیر دنیا سے غرض تھی محو دنیا کر دیا
میں نے کیا چاہا مرے اللہ نے کیا کر دیا
روکنے والا نہ تھا کوئی خدا کو اس لیے
جو کچھ آیا اس کے جی میں بے محابا کر دیا
ہاں اسی کم بخت دل نے کر دیا افشائے راز
ہاں اسی کم بخت دل نے مجھ کو رسوا کر دیا
عشق جا ان تیری باتوں میں نہیں آنے کے ہم
اچھے اچھوں کو جہاں میں تو نے رسوا کر دیا
زندگی بیٹھی تھی اپنے حسن پر بھولی ہوئی
موت نے آتے ہی سارا رنگ پھیکا کر دیا
حسن نے پہلے تو سب مجھ پر حقیقت کھول دی
اور پھر خاموش رہنے کا اشارا کر دیا
حسن کو پہنا چکے جب خود نمائی کا لباس
عشق نے سر پیٹ کر پوچھا کہ یہ کیا کر دیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |