سینہ کوبی کر چکے غم کر چکے

سینہ کوبی کر چکے غم کر چکے
by امداد علی بحر

سینہ کوبی کر چکے غم کر چکے
جیتے جی ہم اپنا ماتم کر چکے

دیکھیے ملتے ہیں کس دن یار سے
عید بھی کر لیں محرم کر چکے

دھیان ان آنکھوں کا جانے کا نہیں
یہ ہرن پالے ہوئے رم کر چکے

دل لگا کر دکھ اٹھائے بے شمار
دم شماری بھی کوئی دم کر چکے

اب کہاں مثل عناصر اتحاد
چار دن وہ ربط باہم کر چکے

اب تو زلفوں کو نہ رکھو فرد فرد
دفتر عالم کو برہم کر چکے

خاک اب ان آنسوؤں کو روکئے
یہ ہمیں رسوائے عالم کر چکے

دیدہ و دل کی بدولت عشق ہیں
روئے برسوں مدتوں غم کر چکے

وہ ہمیں ملتا نہیں کیا کیجیے
اپنی سی تو جست و جو ہم کر چکے

واعظو جو چاہو فرماؤ ہمیں
بیعت پیر مغاں ہم کر چکے

بحرؔ مستغنی ہیں فکر شعر سے
گوہر معنی فراہم کر چکے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse