شانے کی ہر زباں سے سنے کوئی لاف زلف
شانے کی ہر زباں سے سنے کوئی لاف زلف
چیرے ہے سینہ رات کو یہ موشگاف زلف
جس طرح سے کہ کعبہ پہ ہے پوشش سیاہ
اس طرح اس صنم کے ہے رخ پر غلاف زلف
برہم ہے اس قدر جو مرے دل سے زلف یار
شامت زدہ نے کیا کیا ایسا خلاف زلف
مطلب نہ کفر و دیں سے نہ دیر و حرم سے کام
کرتا ہے دل طواف عذار و طواف زلف
ناف غزال چیں ہے کہ ہے نافۂ تتار
کیونکر کہوں کہ ہے گرہ زلف ناف زلف
آپس میں آج دست و گریباں ہے روز و شب
اے مہروش زری کا نہیں موئے باف زلف
کہتا ہے کوئی جیم کوئی لام زلف کو
کہتا ہوں میں ظفرؔ کہ مسطح ہے کاف زلف
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |