شاہد غیب ہویدا نہ ہوا تھا سو ہوا
شاہد غیب ہویدا نہ ہوا تھا سو ہوا
حسن پر آپ نے شیدا نہ ہوا تھا سو ہوا
غمزۂ شوخ سیہ مست ترا مژگاں سے
قتل عاشق پہ صف آرا نہ ہوا تھا سو ہوا
ہنس کے وہ غنچہ دہن میری جگر خواری پر
کہہ دیا تیرا دلاسا نہ ہوا تھا سو ہوا
رشتۂ صاف نگہ میں ہو مسلسل آنسو
سینۂ یار میں مالا نہ ہوا تھا سو ہوا
سر سوداؔ پہ ترے شعر رسا سے آگاہؔ
سلسلہ حشر کا برپا نہ ہوا تھا سو ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |