شب شوق لے گیا تھا ہمیں اس کے گھر تلک

شب شوق لے گیا تھا ہمیں اس کے گھر تلک
by غلام علی ہمدانی مصحفی

شب شوق لے گیا تھا ہمیں اس کے گھر تلک
پر غش سا آ گیا ووہیں پہنچے جو در تلک

گر ہم کو لگ گئی ہیں کبھی ہچکیاں تو ہم
آٹھ آٹھ آنسو روئے ہیں دو دو پہر تلک

ڈرتا ہوں میں یہ گم نہ کرے آپ کو کہیں
پھر جعد کو ہوئی ہے رسائی کمر تلک

پروانہ کیا اڑے ہے چراغاں میں تو نہیں
پہنچا جو کوئی شعلہ ترے بال و پر تلک

صحرائے کشتگاں میں ترے کل گیا تھا میں
دیکھوں تو لالہ زار ہے حد نظر تلک

پھیلاؤ بحر اشک کا اپنے میں کیا کہوں
پہنچی ہے موج گر یہ مری بحر و بر تلک

وے دن کدھر گئے کہ میں لکھ لکھ کے خط شوق
جاتا تھا آپ گریہ کناں نامہ بر تلک

شب اس کی بزم میں جو گئے ہم تو مصحفیؔ
ایسے جمے کہ واں سے نہ اٹھے سحر تلک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse