شب غم میں چھائی گھٹا کالی کالی
شب غم میں چھائی گھٹا کالی کالی
جھکی ہے بلا پر بلا کالی کالی
بہت ایسے کالے ہرن ہم نے دیکھے
دکھاتے ہیں آنکھیں وہ کیا کالی کالی
ڈٹے مل کے رند سیہ مست جس دم
جھکی میکدے پر گھٹا کالی کالی
شب ماہ میں وہ پھرے بال کھولے
ہوئی چاندنی جا بجا کالی کالی
یہ سجدے کو خود جھک پڑے گی چمن پر
کہ قبلے سے اٹھی گھٹا کالی کالی
کھلی سب پر آخر تری گرم دستی
ہوئی کھولتے ہی حنا کا کالی کالی
لنڈھا دے مے سرخ تو اب تو ساقی
گھٹا اٹھی ہے دیکھ کیا کالی کالی
مرے کعبۂ دل کے مٹنے کا غم ہے
جو اوڑھے ہے کعبہ صبا کالی کالی
ہوئے ہیں سیہ بخت برباد لاکھوں
اٹھیں آندھیاں بارہا کالی کالی
بخارات دل آہ پر چھا گئے ہیں
گھٹا ہے بروئے ہوا کالی کالی
میں دیکھوں گا منہ ان کا دے کر یہ فقرہ
تری شکل ہے مہ لقا کالی کالی
سیہ نامۂ قدرؔ محشر میں نکلا
اٹھی دھوپ میں اک گھٹا کالی کالی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |