شب کو مری چشم حسرت کا سب درد دل ان سے کہہ جانا

شب کو مری چشم حسرت کا سب درد دل ان سے کہہ جانا
by شاد عظیم آبادی

شب کو مری چشم حسرت کا سب درد دل ان سے کہہ جانا
دانتوں میں دبا کر ہونٹ اپنا کچھ سوچ کے اس کا رہ جانا

مے خانہ میں آنا زاہد کا پھر در پہ ٹھٹک کر رہ جانا
ساقی کے اشاروں کا مستوں کچھ کان میں سب کے کہہ جانا

اے یاس نہ مانوں گا تیری بس دل کو زیادہ اب نہ دکھا
سمجھا چکی اس کی پہیلی نگہ دکھ درد جو ہو وہ سہہ جانا

مانا کہ فقط موہوم سہی ملنے کی ہمیں اک آس تو ہے
دیدار تو ہو لے دیدۂ تر بہنا ہو اگر تب بہہ جانا

نالے ہوں کہ آہیں اے شب غم جب آ گئیں لب پر صبر کیا
سہنے کو تو سب کچھ دل نے سہا سہنے کی طرح کب سہہ جانا

بنیاد جمانے میں جن کی کیا کچھ نہ بہا تھا خون جگر
اے وا اسفا ان محلوں کا اک چشم زدن میں ڈھ جانا

شب کو وہ ہتھیلی سے ان کا شرما کے چھپانا آنکھوں کو
برچھی کا ادا کی چل جانا اس تیر نظر کا رہ جانا

اترے نہ کسی کے جب دل میں اس بات کا حاصل کیا واعظ
کہنے کو کہی یوں اپنی سی افسوس نہ تو نے کہہ جانا

ہم باغ میں ناحق آئے تھے بلبل کی حکایت کیا کہئے
منقار کو رکھ کر کلیوں پر کچھ اپنی زباں میں کہہ جانا

سن لیں دل ناداں کی باتیں بیکار بگاڑیں کام اپنا
وہ ظلم کریں ہم پر کہ ستم اے شادؔ ہمیں تو سہہ جانا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse