شب کو نالہ جو مرا تا بہ فلک جاتا ہے

شب کو نالہ جو مرا تا بہ فلک جاتا ہے (1900)
by حبیب موسوی
324739شب کو نالہ جو مرا تا بہ فلک جاتا ہے1900حبیب موسوی

شب کو نالہ جو مرا تا بہ فلک جاتا ہے
صبح کو مہر کے پردے میں چمک جاتا ہے

اپنا پیمانۂ دل ہے مئے غم سے لبریز
بوند سے بادۂ عشرت کی چھلک جاتا ہے

کمر یار کی لکھتا ہوں نزاکت جس دم
خامہ سو مرتبہ کاغذ پہ لچک جاتا ہے

یاد آتی ہے کبھی صحبت احباب اگر
ایک شعلہ ہے کہ سینے میں بھڑک جاتا ہے

چاندنی چھپتی ہے تکیوں کے تلے آنکھوں میں خواب
سونے میں ان کا دوپٹہ جو سرک جاتا ہے

وصل کے ذکر پہ کہتے ہیں بگڑ کر دیکھو
ایسی باتوں سے کلیجہ مرا پک جاتا ہے

دل لیا ہے تو خدا کے لئے کہہ دو صاحب
مسکراتے ہو تمہیں پر مرا شک جاتا ہے

پیار کرنے کو جو بڑھتا ہوں تو کہتے ہیں ہٹو
نشہ میں آ کے کوئی ایسا بہک جاتا ہے

ساقیا جام پلا سیخ سے اترا ہے کباب
دیر اچھی نہیں اب لطف گزک جاتا ہے

لب خنداں سے نہ دیں کس لئے قاتل کو دعا
روز زخموں پہ نمک آ کے چھڑک جاتا ہے

شیفتہ شاہد رعنائے سخن کا ہوں حبیبؔ
نئے انداز پہ دل میرا پھڑک جاتا ہے


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.