شب کہ مطرب تھا شراب ناب تھی پیمانہ تھا

شب کہ مطرب تھا شراب ناب تھی پیمانہ تھا (1900)
by حبیب موسوی
324745شب کہ مطرب تھا شراب ناب تھی پیمانہ تھا1900حبیب موسوی

شب کہ مطرب تھا شراب ناب تھی پیمانہ تھا
وہ پری وش کیا نہ تھا گویا کہ جو کچھ تھا نہ تھا

سوز دل سے لب یہ ہر دم نالہ بیتابانہ تھا
ہجر ساقی میں کسی پہلو قرار اصلا نہ تھا

جلوہ گر دل میں خیال عارض جانانہ تھا
گھر کی زینت تھی کہ زینت بخش صاحب خانہ تھا

کیا کروں اب مبتلا ہوں آپ اپنے حال میں
دی تھی نعمت اس نے جب لب پر مرے شکرانہ تھا

شہرۂ آفاق ہوتی میری ازخود رفتگی
خیریت گزری کہ آنکھوں سے تجھے دیکھا نہ تھا

فصل گل میں چھوڑتا مے دیکھ کر ماہ صیام
کچھ جنوں مجھ کو نہ تھا وحشت نہ تھی سودا نہ تھا

کیا کہوں ڈر یہ ہے وہ لیلیٰ ادا رسوا نہ ہو
ورنہ مجنوں سے بھی کچھ بڑھ کر میرا افسانہ نہ تھا

گر نزاکت میں نہ ہوتا مثل تار عنکبوت
خوب الفت سے زمانہ میں کوئی رشتہ نہ تھا

یوں ضعیفی آ گئی گویا ازل سے تھے ضعیف
اور شباب ایسا گیا جیسے کبھی آیا نہ تھا

ہے یقیں عاشق تمہارا مر گیا ہو لو خبر
میں نے کل دیکھا تھا جا کر حال کچھ اچھا نہ تھا

نیم باز آنکھیں تمہارا نام تھا ورد زباں
زخم دل پر ہاتھ تھا لب پر مگر شکوہ نہ تھا

بخت کی برگشتگی گزری ہے حد سے اے حبیبؔ
دیکھتے ہیں ان کے تلوے جن کا منہ دیکھا نہ تھا


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.