شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی
شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی
میں جب آنکھ کھولی بہت رات نکلی
مجھے گالیاں دے گیا وہ صریحاً
مرے منہ سے ہرگز نہ کچھ بات نکلی
ہوا وادیٔ قتل صحرائے محشر
مری نعش جب روز میقات نکلی
کمی کر گیا ناز پنہاں کا خنجر
نہ جاں تیرے بسمل کی ہیہات نکلی
تو اے مصحفیؔ اب تو گرم سخن ہو
شب آئیں دراز اور برسات نکلی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |