شب ہم کو جو اس کی دھن رہی ہے
شب ہم کو جو اس کی دھن رہی ہے
کیا جی میں ادھیڑ بن رہی ہے
مجنوں سے کہو کہ ماں کے لیلیٰ
خاطر تری طعنے سن رہی ہے
پروانہ تو جل چکا ولے شمع
سر اپنا ہنوز دھن رہی ہے
پہلو سے اٹھا مرے نہ غبغب
یہ پوٹلی درد چن رہی ہے
یہ آہ پہ لخت دل جلے ہیں
یا سیخ کباب بھن رہی ہے
رکھوں نہ عزیز داغ دل کو
پاس اپنے یہی تو ہن رہی ہے
اے مینہ نہ برس کہ مصحفیؔ کی
چھت گھر کی تمام گھن رہی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |