شتابی اپنے دیوانے کو کر بند
شتابی اپنے دیوانے کو کر بند
مسلسل زلف سے کر یا نظر بند
ترا شیدا نہ ٹھہرا جاں سا اک دم
گیا لے کوٹ میں لوہے کے کر بند
جو تجھ پر اور کو ترجیح دے دیکھ
بس اس اندھے کی آنکھیں ہیں مگر بند
تڑپتا بے قراری آہ و زاری
ہوئیں یہ حالتیں کیوں کر سطر بند
ہے شعلہ آگ کا ہر آہ کے ساتھ
یہ دل ہے یا ہے سینے میں شرر بند
پیارے ڈر خدا سے اپنی آنکھیں
ہماری طرف سے اتنی نہ کر بند
تجھے خورشید رو، جی بھر کے دیکھوں
ہوئی جاتی ہے میری آنکھ پر بند
عزیزو مصر دل کی راہ ہے دور
رہ ظلمات میں ہے گا یہ در بند
جو چاہے دو جہاں کا کام لے گا
ہے باندھا جس نے ہمت کا کمر بند
رہو ٹک اظفریؔ اب چشم کھولے
رہیں گی آنکھ پھر شام و سحر بند
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |