شجر باغ جہاں کا تھا جہاں تک سب ثمر لایا
شجر باغ جہاں کا تھا جہاں تک سب ثمر لایا
مگر اک نخل آہ اس میں نہ ہم نے کچھ اثر پایا
برا تو مانتے ہیں میرے رو رو عرض کرنے پر
بھلا تم نے کبھی کچھ ہنس کے میرے حق میں فرمایا
جہاں اک ہستیٔ بے بود ہے جیوں عکس آئینہ
جو ہم نے غور کر دیکھا تو دھوکا ہی نظر آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |