شراب خون جگر ہے ہم کو شراب ہم لے کے کیا کریں گے
شراب خون جگر ہے ہم کو شراب ہم لے کے کیا کریں گے
گزک کی جا ہے دل برشتہ کباب ہم لے کے کیا کریں گے
ہزار پردہ میں تم چھپاؤ پہ حسن چھپتا نہیں مری جاں
تمہارے عارض یہ کہہ رہے ہیں نقاب ہم لے کے کیا کریں گے
ہمارے نقد دل و جگر کو حساب کے بعد پھیر دیں گے
حساب لینے کا ان سے حاصل حساب ہم لے کے کیا کریں گے
ہمیں جو بھیجا ہے تم نے مصحف تو یار حرف آشنا نہیں ہم
دکھاؤ اپنا رخ کتابی کتاب ہم لے کے کیا کریں گے
بتوں کی الفت سے بعض آئیں مگر جو دل مان جائے واعظ
عذاب میں جان پڑ گئی ہے ثواب ہم لے کے کیا کریں گے
جو منع کرتا ہے دل نہ دیں گے بتوں کو ناصح مگر خدارا
بتا دے تو ہی کہ اس طرح کا عذاب ہم لے کے کیا کریں گے
خدا کی بخشی ہوئی ہے وقعت اثرؔ نہیں کوئی ایسی نعمت
ملی ہے جب عزت سیادت خطاب ہم لے کے کیا کریں گے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |