شراب پی جان تن میں آئی الم سے تھا دل کباب کیسا

شراب پی جان تن میں آئی الم سے تھا دل کباب کیسا (1900)
by حبیب موسوی
324733شراب پی جان تن میں آئی الم سے تھا دل کباب کیسا1900حبیب موسوی

شراب پی جان تن میں آئی الم سے تھا دل کباب کیسا
گلے سے لگ جاؤ آؤ صاحب کہاں کا پردہ حجاب کیسا

اب آؤ بھی ہر طرف تکلف نقاب کیسی کہاں کا پردہ
جھکائے کیوں سر ہو شرم سے تم عیاں ہے رخ سے حجاب کیسا

بڑھا جو میں رکھ کے عذر مستی کہا یہ ہنس کر چڑھا کے تیوری
ہٹو ذرا ہوش میں رہو جی سنبھالو دل اضطراب کیسا

تمہیں مبارک ہو جو لیا ہے بھلا دو جو ہم کو دے دیا ہے
جو ہو گیا اس کا ذکر کیا ہے یہ دوستوں میں حساب کیسا

بہار کے دن ہیں کیا مزہ ہے شراب کا دور چل رہا ہے
لگا ہے سبزہ چمن کھلا ہے برس رہا ہے سحاب کیسا

میں رشک مجنوں ہوں دیکھ ادھر تو نہ لا صبا گلستاں کی خوشبو
غبار کی ہے دماغ کو خو کہاں کا عطر اور گلاب کیسا

وہ چشم کرتی ہے صید آہو ہیں اتنے تیر مژہ ترازو
پکار ہوگی یہ کل کو ہر سو کریہہ ہے مشک ناب کیسا

کبھی وہ مستی میں رنگ لائے کبھی کیا شاد مسکرائے
عجب طرح کے مزے اٹھائے وصال کی شب میں خواب کیسا

نہ میل کر ساقیا یوں ہی دے پسند مجھ کو نہیں کوئی شے
جگر پہ چرکا لگے پیاپے کہاں کا پانی گلاب کیسا

نہیں ہے دوزخ کا دل کو کچھ غم مری بھی سن ناصحا ذرا تھم
رحیم وہ پر گناہ ہیں ہم عذاب کیسا ثواب کیسا

جو روز ہے رخ تو زلف ہے شب ذقن ہے مانند چاہ نخشب
یہ حال ہے بچپنے میں یا رب تو ہوگا عہد شباب کیسا

یہ دور ہے چشم سرمہ گوں کا فلک ہے اک قطرہ بحر خوں کا
جہان میں رنگ ہے فسوں کا ہے مست ہر شیخ و شباب کیسا

حبیبؔ ہیں بند کام تیرے کہاں ہیں شاہ انام تیرے
نہیں پہنچتے امام تیرے ہے بندۂ بو تراب کیسا


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.