شرطیں جو بندگی میں لگانا روا ہوا
شرطیں جو بندگی میں لگانا روا ہوا
اے واعظوں نماز نہ ٹھہری جوا ہوا
ابھرا جو رو سیاہ تنک ظرف کیا ہوا
حد سے سوا جو خال ہوا وہ مسا ہوا
پوچھو نہ کوے یار عدم کی مسافرو
ڈھرا ہے سوئے گور غریباں لگا ہوا
سوکھا ہوائے غم سے جو کچھ تازگی ہوئی
میں وہ شجر ہوں خشک ہوا جب ہرا ہوا
ثانی محال ہے صنم لاجواب کا
پیدا کوئی خدا کا نہیں دوسرا ہوا
مثل حباب دم میں فنا ہو جو آدمی
پانی کا بلبلہ نہ ہوا اور کیا ہوا
وہ دل جلا ہوں جس میں مری خاک مل گئی
جو نخل اس زمیں پہ ہوا آگ کا ہوا
ناخن خراشیوں سے جراحت جو بڑھ چلے
ناسور اور زخم کہن میں سوا ہوا
ہنستے تو گل رخوں سے ہیں مثل دہان زخم
لیکن ہے آبلے کی طرح دل دکھا ہوا
ساکت زبان ہو گئی اے شادؔ مرتے دم
کیا بند عندلیب مرا بولتا ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |