شرم آلود کہیں دیدۂ غماز نہ ہو
شرم آلود کہیں دیدۂ غماز نہ ہو
دلبری کا کوئی پہلو نظر انداز نہ ہو
دور سے درد بھری ایک صدا آتی ہے
میرے ٹوٹے ہوئے دل کی کہیں آواز نہ ہو
لذت درد کا مہجور سہارا کیوں لیں
لطف تنہائی تو جب ہے کوئی دم ساز نہ ہو
شکر صد شکر کہ اے شوق مرا طائر دل
بال و پر ہوتے ہوئے مائل پرواز نہ ہو
منتظر بزم ہے آ جائیں بصد عشوۂ و ناز
شرط یہ ہے کہ نگاہ غلط انداز نہ ہو
یہ بھی کیا دور ہے نیرنگی عالم تیرا
مرغ آسودہ چمن زمزمۂ پرواز نہ ہو
کثرت جلوہ میں گم ہے دل ہنگامہ فروز
بے خودی کہتی ہے میرا کوئی ہم راز نہ ہو
سر مقتل کوئی اس شان سے آئے اے شوقؔ
لب پہ اعجاز نہ ہو چشم فسوں ساز نہ ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |