شعر آشوب
by ظریف لکھنوی

تجھ میں اے ہندوستاں کچھ آج کل حد سے سوا
چار سو پھیلی ہوئی ہے شاعری کی اک وبا
اس مرض میں اب تو اسی فیصدی ہیں مبتلا
مستند شاعر ہے جس نے اک تخلص رکھ لیا
شاعری گو عہد ماضی میں تھی پایان علوم
اب تخلص میں سمٹ کر آ گئی جان علوم
اے عجائب خانۂ ہستی کی جنس بے بہا
عہد موجودہ کے شاعر واہ کیا کہنا ترا
تیری کثرت ہر جگہ مردم شماری سے سوا
تو فرشتہ ہے بشر کی شکل میں اس عہد کا
تجھ کو کھانے سے نہ کچھ مطلب نہ کچھ پینے سے کام
شعر کہہ کہہ کر سنانے اور فقط جینے سے کام
ہے بہت تکلیف دہ شاعر کی وہ جنس عجیب
جو سنانے کے لیے بے چین رہتا ہو غریب
اس کو اچھا کر نہیں سکتا کوئی کامل طبیب
شاعری کی جس کو بد ہضمی ہو ہیضہ کے قریب
چاہتا ہے سب سنا دوں جو کہوں اک سال میں
مبتلا ہے شاعری کے سخت تر اسہال میں
نظم کر لیتا ہے سب کچھ اتنی آسانی کے ساتھ
جس طرح بہتے ہیں تنکے تیز رو پانی کے ساتھ
جب کہ تو لیتا نہیں اپنے دماغ و دل سے کام
سہل سے ہے تجھ کو مطلب اور کیا مشکل سے کام
سب کو قلت وقت کی تجھ کو فراوانی ملی
سنگ کو انسان کی شکل ہیولانی ملی
کسب زر سب کے لیے تجھ کو غزل خوانی ملی
مفت کی بے گار کرنے کو سخن دانی ملی
ہر ضرورت تیری اک جھوٹا بہانہ بن گئی
معذرت تک آہ عذر شاعرانہ بن گئی
کچھ صعوبات سفر ہوتے نہیں مانا تجھے
صحبت شعر و سخن میں فرض ہے جانا تجھے
کام شب بھر جاگنا مصرع کا دہرانا تجھے
ہر غزل کی داد دینا اور چلانا تجھے
تیری شرکت لازمی ہر شہر میں ہر گاؤں میں
سر میں سودائے سخن اور سنیچر پاؤں میں
دیکھ تیری قدر یوں کرتے ہیں تیرے قدرداں
کوئی میلا ہو کہیں پر یا نمائش یا نہاں
جس میں سرکس بھی ہو دنگل میں لڑیں کچھ پہلواں
یاد کر لیتے ہیں بھولے سے تجھے بھی مہرباں
دیتے ہیں لالچ میڈل کا تیری عزت کے لیے
تھرڈ کا تجھ کو ٹکٹ ملتا ہے شرکت کے لیے
یہ بھی جب کافی ضمانت ہو کہ شاعر آئے گا
یہ کرایہ تو کہیں لے کر نہ کھا جائے گا
ایک بھرتی کرنے والا خود ٹکٹ دلوائے گا
اپنی ہمراہی میں تجھ کو ریل پر بٹھلائے گا
پڑھ نہ لے جب تک غزل ہوتی رہے گی دیکھ بھال
بعد اس کے ایک ووٹر اور شاعر کا مآل
یہ بھی ہے شاعر کے ذمے اک ضروری اور کام
جب غزل پڑھنے شریک بزم ہو یہ نیک نام
اپنے جوتوں کا کرے اپنی بغل میں انتظام
ورنہ ننگے پیر گھر آنا پڑے گا والسلام
بزم میں کچھ قدر داں اس قسم کے آ جائیں گے
چھانٹ کر اکثر نئے جوتے چرا لے جائیں گے
پیسے والوں کی سمجھ میں آ گئی ہے اب یہ بات
صرف بے جا ناچ گانے کا ہے بالکل واہیات
جب کوئی جلسہ خوشی کا ہو کہیں پر ہو برات
منعقد بزم سخن ہوتی ہے تا کٹ جائے رات
پہلے ارباب نشاط آتے تھے گانے کے لیے
اب تو شاعر جاتے ہیں غزلیں سنانے کے لیے
یاد ایامے کہ شاعر کو زباں پر ناز تھا
قوت تخئیل ہی سرمایۂ اعزاز تھا
لفظ ہی میں سوز تھا اور لفظ ہی میں ساز تھا
نغمۂ شاعر کا روح القدس ہم آواز تھا
اب اگر قابو ہو ان پر تو ملے شاعر کو داد
سررکھب گندھار مدھم پنجم اور دھیوت نکھار
رفتہ رفتہ بڑھ گیا گر شوق و ذوق نغمہ ساز
شاعر اب آئیں گے محفل میں پہن کر پیشواز
ختم اس فقرہ پہ ہوگی ہر غزل استاد کی
سنیے میں ہوں جانکی بائی الہ آباد کی
تو نمونہ سر بسر اخلاق و خودداری کا تھا
اک صفا آئینہ تو قدرت باری کا تھا
تو معالج نفس امارہ کی بیماری کا تھا
تو ذریعہ ملک اور ملت کی بیداری کا تھا
کتنی عبرت خیز شے اب عالم ہستی میں ہے
جس نے قوموں کو ابھارا تھا وہی پستی میں ہے
پیشہ ور جتنے ہیں ان کی ملک میں عزت تو ہے
کم سہی لیکن ہر اک صنعت کی کچھ قیمت تو ہے
ہر ضرورت پر کسی صناع کی حاجت تو ہے
جز ترے ہر اہل فن کی کچھ نہ کچھ اجرت تو ہے
قسمت برباد تیری بن کے اڑ جاتی ہے بھاپ
ہے صلہ تیرا یہی کیا خوب فرماتے ہیں آپ!

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse