شعر دولت ہے کہاں کی دولت
شعر دولت ہے کہاں کی دولت
میں غنی ہوں تو زباں کی دولت
سیکڑوں ہو گئے صاحب دیواں
میری تقریری و بیاں کی دولت
سیر مہتاب کر آئے ہم بھی
بارے اس آب رواں کی دولت
زخم کیا کیا مرے تن پر آئے
تیری شمشیر و سناں کی دولت
ہوئی محبوس قفس بلبل نے
رنج دیکھا یہ خزاں کی دولت
کوئی نواب کے گھر کا ہے غلام
کوئی پلتائے ہے خاں کی دولت
مصحفیؔ پر ہے ترا کر و فر
صاحب عالمیاں کی دولت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |