شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو
شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو
مرغ پھر کیا لڑے جو نوک نہ ہو
کہیں دیکھے ہی سادہ رو خونخوار
چشمۂ آئینہ میں جوک نہ ہو
وہی کوچہ بھلا کہ جس میں کبھو
دندنالوں کی روک ٹوک نہ ہو
نام گردوں پہ جس کا ہے پرویں
نیشکر کا یہ اس کے پھوک نہ ہو
رنڈی بازی وہ کیا کرے پھر خاک
پاس جس کے کتاب کوک نہ ہو
گلہ باید حریص شہوت را
ایک بکری سے شاد بوک نہ ہو
پیٹ کا بھاڑ ہے بلا نہ بھرے
خوب تا اس میں جھوکا جھوک نہ ہو
حسن مطرب ہے سن کے گانے کا
پیشہ لے جب گلے میں ڈوک نہ ہو
کیا پھنکیتی کا وہ کرے دعویٰ
مصحفیؔ یاد جس کو روک نہ ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |