شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو

شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316237شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہوغلام علی ہمدانی مصحفی

شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو
مرغ پھر کیا لڑے جو نوک نہ ہو

کہیں دیکھے ہی سادہ رو خونخوار
چشمۂ آئینہ میں جوک نہ ہو

وہی کوچہ بھلا کہ جس میں کبھو
دندنالوں کی روک ٹوک نہ ہو

نام گردوں پہ جس کا ہے پرویں
نیشکر کا یہ اس کے پھوک نہ ہو

رنڈی بازی وہ کیا کرے پھر خاک
پاس جس کے کتاب کوک نہ ہو

گلہ باید حریص شہوت را
ایک بکری سے شاد بوک نہ ہو

پیٹ کا بھاڑ ہے بلا نہ بھرے
خوب تا اس میں جھوکا جھوک نہ ہو

حسن مطرب ہے سن کے گانے کا
پیشہ لے جب گلے میں ڈوک نہ ہو

کیا پھنکیتی کا وہ کرے دعویٰ
مصحفیؔ یاد جس کو روک نہ ہو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.