شعلۂ عشق
by میر تقی میر
314874شعلۂ عشقمیر تقی میر

محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت مسبب محبت سبب
محبت سے آتے ہیں کار عجب
محبت بن اس جا نہ آیا کوئی
محبت سے خالی نہ پایا کوئی
محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے
محبت سے کس کو ہوا ہے فراغ
محبت نے کیا کیا دکھائے ہیں داغ
محبت اگر کارپرداز ہو
دلوں کے تئیں سوز سے ساز ہو
محبت ہے آب رخ کار دل
محبت ہے گرمی آزار دل
محبت عجب خواب خوں ریز ہے
محبت بلاے دل آویز ہے
محبت کی ہیں کارپردازیاں
کہ عاشق سے ہوتی ہیں جانبازیاں
محبت کی آتش سے اخگر ہے دل
محبت نہ ہووے تو پتھر ہے دل
محبت کو ہے اس گلستاں میں راہ
کلی کے دل تنگ میں بھی ہے چاہ
محبت ہی سے دل کو رو بیٹھیے
محبت میں جی مفت کھو بیٹھیے
محبت لگاتی ہے پانی میں آگ
محبت سے ہے تیغ و گردن میں لاگ
محبت سے ہے انتظام جہاں
محبت سے گردش میں ہے آسماں
محبت سے روتے گئے یار خوں
محبت سے ہو ہو گیا ہے جنوں
محبت سے آتا ہے جو کچھ کہو
محبت سے ہو جو وہ ہرگز نہ ہو
محبت سے پروانہ آتش بجاں
محبت سے بلبل ہے گرم فغاں
اسی آگ سے شمع کو ہے گداز
اسی کے لیے گل ہے سرگرم ناز
محبت ہی ہے تحت سے تا بہ فوق
زمیں آسماں سب ہیں لبریز شوق
محبت سے یاروں کے ہیں رنگ زرد
دلوں میں محبت سے اٹھتے ہیں درد
گیا قیس ناشاد اس عشق میں
کھپی جان فرہاد اس عشق میں
ہوئی اس سے شیریں کی حالت تباہ
کیا اس سے لیلیٰ نے خیمہ سیاہ
سنا ہوگا وامق پہ جو کچھ ہوا
نل اس عشق میں کس طرح سے موا
جو عذرا پہ گذرا سو مشہور ہے
دمن کا بھی احوال مذکور ہے
ستم اس بلا کے ہی سہتے گئے
سب اس عشق کو عشق کہتے گئے
اس آتش سے گرمی ہے خورشید میں
یہی ذرے کی جان نومید میں
اسی سے دل ماہ ہے داغ دار
کتاں کا جگر ہے سراسر فگار
نئے اس کے چرچے حکایت سنی
گہے شکر گاہے شکایت سنی
اسی سے قیامت ہے ہر چار اور
اسی فتنہ گر کا ہے عالم میں شور
کوئی شہر ایسا نہ دیکھا کہ واں
نہ ہو اس سے آشوب محشر عیاں
کب اس عشق نے تازہ کاری نہ کی
کہاں خون سے غازہ کاری نہ کی
زمانے میں ایسا نہیں تازہ کار
غرض ہے یہ اعجوبۂ روزگار

آغاز قصہ

عجب کام پٹنے میں اس سے ہوا
عجب اہل عالم کو جس سے ہوا
کہ واں اک جواں تھا پرس رام نام
خوش اندام و خوش قامت و خوش خرام
جوانی کے گلشن کا وہ آب و رنگ
گلستاں پہ کام اس کی خوبی سے تنگ
جدھر نکلے رنگیں ادائی کے ساتھ
چلے جائیں جی خوش نمائی کے ساتھ
کھلے بال چلتا تھا وہ سرو ناز
قدم بوس کو آتی عمر دراز
جدھر کو وہ ٹک گرم رفتار ہو
قیامت ادھر سے نمودار ہو
نگہ گرم اس کی جدھر جا لڑی
کہے تو کہ اودھر کو بجلی پڑی
وہ کافر بھویں ہوویں مائل جہاں
کریں سجدہ اس جا پہ اسلامیاں
نگہ تیغ مجروح جس کے پڑے
پلک سیل جوں دل میں جاکر گڑے
سیہ چشم اس کے دو بدمست تھے
نگاہوں سے شمشیر در دست تھے
رخ اس کا کہاں اور مہ و خور کہاں
تفاوت زمیں آسماں کا ہے یاں
دو لب لعل کو جن سے شرمندگی
دم حرف سرمایۂ زندگی
دہن کی جو تنگی نظر کیجیے
تو آگے سخن مختصر کیجیے
نہ ہم تم زنخ دیکھ حیراں رہیں
سبھی دست زیر زنخداں رہیں
سراپا میں اس کے جہاں دیکھیے
وہیں روے مقصود جاں دیکھیے
خراماں نکلتا وہ جس راہ سے
قیامت تھی واں نالہ و آہ سے
فدا اس پہ جی جان ہر ایک کا
کہ مقصود دل تھا بد و نیک کا
کئی گرد و پیش اس کے وارفتگاں
کئی ایدھر اودھر جگر تفتگاں
بہت رفتگان اداے کلام
بہت مبتلاے بلاے خرام
کوئی کشتۂ شوق رفتار کا
کوئی نیم جاں ذوق دیدار کا
کوئی والۂ خندۂ برق وش
کسو کے تئیں جنبش لب سے غش
کسو کی نظر میں کمر کی لچک
کسو کے جگر میں پلک کی کسک
کوئی حیرتی طرز گفتار کے
کوئی آرزوکش بروبار کے
کوئی زلف سے اس کی مجنوں رہے
کسو کا تبسم سے دل خوں رہے
کوئی دل ستم کشتۂ یک نگاہ
کوئی جان ہونٹھوں پہ موقوف آہ
کسو پر فسوں گردش چشم کا
کسو پر غضب غمزہ و خشم کا
کوئی دست بر دل کوئی بے قرار
کوئی بے خبر کوئی بے اختیار
انھوں میں سے اک عاشق زار تھا
اس آفت کو اس سے سروکار تھا
محبت میں تھا جذب کامل اسے
مراد دل اپنی تھی حاصل اسے
شب و روز ہم بستر کام دل
ہمیشہ ہم آغوش آرام دل
دم اس کے میں یاں تک تو تاثیر تھی
کہ صحبت اس آتش سے درگیر تھی
بہم ربط چسپاں بہم اختلاط
نہ کم ہوتی گرمی نہ کم اختلاط
مرو کوئی غم سے کوئی ہو ہلاک
وہ شعلہ اسی خس سے رکھتا تپاک
کہاں حسن میں تھا وفا کا یہ پاس
یہ سنیے کہ ہے گا خلاف قیاس
بہت سے بہت اس کا مالوف تھا
اسی کی تسلی سے مصروف تھا
کہ ناگہ وہ دلبر ہوا کدخدا
رہا اپنے عاشق سے چندے جدا
زن و شو سے اخلاص باہم ہوا
اس آشفتہ سے رابطہ کم ہوا
نگاہیں بہم دل میں کاوش کریں
سخن سے وفائیں تراوش کریں
ہوا ربط چسپاں بہم اس قدر
کہ دشوار اٹھے ہم دگر سے نظر
رہیں دونوں دست و بغل روز و شب
کبھو منھ پہ منھ ہو کبھو لب پہ لب
وفا نے جو تکلیف کی ایک روز
گیا اپنے عاشق کے وہ دل فروز
کئی دن میں جاکر جو اس سے ملا
کیا اس نے حد سے زیادہ گلہ
کہ اے نازنیں آہ کن نے کہا
کہ تو حال سے میرے غافل رہا
مگر سد رہ تھا کسو کا فریب
ملا کوئی تجھ سے بھی دشمن شکیب
کوئی زلف زنجیر پا ہوگئی
کہ مسدود راہ وفا ہوگئی
طرح کس کی چتون کی دل میں کھبی
جگر میں پلک شوخ کس کی چبھی
کسو چشم نے تجھ کو جادو کیا
مرے جام عشرت کو لوہو کیا
کہا ان نے تھی کدخدائی مری
نہ تھی بے سبب یہ جدائی مری
رکھ اب مجھ کو معذور ناچار ہوں
محبت کا میں نوگرفتار ہوں
نہ فرصت مجھے صبح ہے اب نہ شام
طرف اس کے ہے دل کو میل تمام
اسے بھی مرے ساتھ اخلاص ہے
دلوں کو بہم رابطہ خاص ہے
اسے مجھ سے ہے نسبت عاشقی
وہ رہتی ہے بے طاقت عاشقی
نہیں اس کو یک لحظہ تاب فراق
جدائی مری اس پہ گذرے ہے شاق
نکلتا ہوں گھر سے جو میں ایک آن
تو پاتا ہوں جاکر اسے نیم جان
نہ دیکھے جو مجھ کو تو مر جائے وہ
وہیں جی سے اپنے گذر جائے وہ
جو پہنچے مری جھونٹھ اسے بدخبر
تو کر بیٹھے سچ اپنے جی کا ضرر
غرض اس کو تاب و تحمل نہیں
شکیبائی ہجر بالکل نہیں
یہ سن کر کہا اس دل افگار نے
ستم کشتۂ دوری یار نے
کہ مجھ کو نہیں تیری باتیں قبول
یہ مکر زناں ہیں تو ان پر نہ بھول
وفا کن نے ان ناقصوں میں سے کی
موا شوے کس کا کہ وہ پھر نہ جی
یہ ظاہر میں ہر چند ہوں رشک ماہ
ولیکن ہیں باطن میں مار سیاہ
خدا مکر سے ان کے دے ہے خبر
نہیں ان سے کوئی فریبندہ تر
جہاں میں فریب ان کا مشہور ہے
زبانوں پہ مکر ان کا مذکور ہے
پئے امتحاں عاقبت یک نفر
مقرر ہوا تاکہ جا اس کے گھر
کہے غرق دریا ہوا پرس رام
ہوئی زندگانی کی صبح اس کی شام
گیا تھا نہانے کو وقت سحر
سو ڈوبا وہ خورشید روشن گہر
کیا موج دریا نے سر سے گذار
اٹھا طبع نازک سے اس کے غبار
وہ گیسو جو بکھرے تھے بالاے آب
سو اب موج دریا کو ہے پیچ و تاب
پھرے تھیں جو وے انکھڑیاں آب میں
سو وے گردشیں اب ہیں گرداب میں
تمنا میں تھے جس کے سب دل فگار
سو دریا کو اب ہے وہ بوس و کنار
نہ سمجھا وہ نافہم اسرار عشق
نہ سوچا وہ ناتجربہ کار عشق
کہا غرق دریا ہوا پرس رام
ہوا کام اس رشک مہ کا تمام
کہے تو کہ موجوں کو تھا انتظار
کہ دست و بغل ہوگئیں ایک بار
گیا بیٹھ پانی میں ایسا شتاب
کہ گویا لب آب کا تھا حباب
کنارے پہ دریا کے اک شور ہے
بحال خراب ایک جمہور ہے
گرے ہیں کئی آشنا آب میں
کئی آتش غم سے ہیں تاب میں
کوئی سر پہ اس غم سے ڈالے ہے خاک
کسی نے کیا ہے گریباں کو چاک
ہمیں داغ وہ در تر دے گیا
بہت آب یہ ماجرا لے گیا
سنا اس کی ہمسر نے جب یہ سخن
ہوا موج زن بحر رنج و محن
نگہ اک طرف در کے مایوس کی
دم سرد کھینچا گیا ڈوب جی
وہی بے خودی رخصت جان تھی
وہ اک دم کی گویا کہ مہمان تھی
گری ہو کے بے جان وہ دردمند
ہوا شور نوحے کا گھر سے بلند
موئی غم میں اس جملہ تن ناز کے
گئی جان ہمرہ سخن ساز کے
وہ آیا جو تھا دل پریشاں گیا
کہ اس واقعے سے پشیماں گیا
خبر لے گیا اس کنے زودتر
جو تھا درپئے امتحاں بے خبر
کہ وہ رشک مہ امتحاں دے گئی
محبت کے ناموس کو لے گئی
موا سن پرس رام کے تیں موئی
مرے اک سخن میں قیامت ہوئی
اگرچہ نہ کچھ ان نے منھ سے کہا
دیا جی ولے جی اسی میں رہا
یہ سن کر وہ نافہم حیراں ہوا
خجالت میں سر در گریباں ہوا
گیا ہوش سن کر پرس رام کا
دوانہ ہوا عشق کے کام کا
اٹھا بے خود و بے خرد بے حواس
گرا آکے اس پیکر مردہ پاس
لگا کہنے اے مایۂ زندگی
مجھے منھ سے تیرے ہے شرمندگی
کیا جلد رخت سفر تونے بار
نہ میرا کیا آہ ٹک انتظار
نہ میری سنی کچھ نہ اپنی کہی
مرے تیرے دونوں کے جی میں رہی
زمیں پر سے آخر اٹھایا اسے
لب آب جاکر جلایا اسے
جب آگ اس کے پیکر پہ سب چھا گئی
محبت عجب داغ دکھلا گئی
یہ سرگرم فریاد و زاری ہوا
لہو اس کی آنکھوں سے جاری ہوا
جگر غم میں یک لخت خوں ہوگیا
رکا دل کہ آخر جنوں ہوگیا
گئے ہوش و صبر اس کے یک بارگی
طبیعت میں آئی اک آوارگی
سراسیمگی سے بگولا ہوا
پھرے اس طرح جیسے بھولا ہوا
نہ جی کو تسلی نہ دل کو قرار
کف غم میں سررشتۂ اختیار
کبھو یاد کر اس کو نالاں رہے
کبھو ٹک جو بھولے تو حیراں رہے
کبھو یاں کبھو واں بحال خراب
وہی بے قراری وہی اضطراب
رہے گھر تو آشوب گہ وہ گلی
چمن میں جو لے جائیں تو بے کلی
کبھو متصل ہونٹھ پر آہ سرد
کبھو دست بر دل کہ دل میں ہے درد
ہوئی رفتہ رفتہ جو وحشت زیاد
لگا بھاگنے سب سے وہ نامراد
کچھ اپنے بد و نیک کی سدھ نہیں
نکل جائے تنہا کہیں کا کہیں
کبھو جاکے صحرا سے لاویں اسے
کبھو روتے دریا پہ پاویں اسے
کبھو خاک ملتا ہے منھ پر کھڑا
کہیں ہے خرابی میں بے سدھ پڑا
سر شام اک روز دریا گیا
ہوئی رات واں سے نہ آیا گیا
کنارے پہ رہتا تھا اک دام دار
رہا رات اس کے یہ قرب و جوار
کہا اس کی عورت نے اس رات کو
نہیں تجھ سے جی چاہتا بات کو
تجھے فکر کچھ اب ہماری نہیں
تو جاتا نہیں شام کو اب کہیں
ترا شب کو دریا میں پڑتا تھا دام
تو چلتا تھا بارے معیشت کا کام
تو جاتا نہیں شب کو جس روز سے
معیشت ہے اندوہ جاں سوز سے
نہیں طاقت صبر ہم کو تنک
بہت دیر ملتا ہے نان و نمک
وہ بولا کہ میں بھی پریشان ہوں
بہت تنگ دستی سے حیران ہوں
کہوں کیا کئی روز سے شام کو
اٹھاتا ہوں میں اس سبب دام کو
کہ یک شعلۂ تند پرپیچ و تاب
فلک سے اترتا ہے نزدیک آب
کوئی دم تو رہتا ہے سرگرم گشت
کبھی سوے دریا کبھی سوے دشت
ٹھہرتا جو ہے پھر کنارے پہ واں
کہے ہے پرس رام تو ہے کہاں
یہ آتش مرے دل کی کیونکر بجھے
عدم میں بھی میں نے نہ پایا تجھے
کیا عشق نے مجھ کو آتش کا باب
نہ چھڑکا مری آگ پر تونے آب
گیا وہ یہ کہہ کر سوے آسماں
رہے ہے مجھے رات دن خوف جاں
سنا حال شعلے کا صیاد سے
دھواں اک اٹھا جان ناشاد سے
ہوا شعلۂ شوق دل سے بلند
رہا لوٹتا آگ میں جوں سپند
گئی رات جوں توں ہوئی صبح جب
زیادہ ہوئی عشق کی تاب و تب
محبت نے کی اشتعالک کہ وہ
سراسیمہ آیا چلا اس جگہ
جہاں سے اٹھی تھی یہ آتش سلگ
پھر اس کے جگر کو لگی گھر کو لگ
تبسم کناں واں یہ ان نے کہا
کہ کلفت میں غم کی بہت میں رہا
چلو سیرگشتی کو ہنگام شب
لب آب خالی کریں دل کو سب
ہوا سو ہوا یوں ہی تقدیر تھی
جہاں سوز الفت کی تاثیر تھی
نہ ہوتے جو دل گیر یاں متصل
نہ ہوتی یہ آتش کبھو مشتعل
کیاں عقل کی ان نے باتیں جو واں
وہ عاشق جو تھا درپئے امتحاں
لگا کہنے یہ آرزو تھی مجھے
کہ اک روز ہشیار دیکھوں تجھے
سو یہ دن خدا نے دکھایا مجھے
سخن تیرے منھ کا سنایا مجھے
ندامت سے ہوں تنگ شاہد ہیں سب
گرفتار ہوں میں بحال عجب
نہ خجلت سے رو ہے جو کچھ میں کہوں
نہ قدرت اجل پر کہ مر بھی رہوں
نہ تقدیر کا میں نے سمجھا فریب
نہ جانا کہ اتنی ہے وہ ناشکیب
ہوا اک سخن میں مرے یہ غضب
خرابی کا تیری ہوا میں سبب
کروں گا زمانے میں جب تک معاش
رہوں گا اسی درد سے دل خراش
مقرر کیا ہے کئی دن سے یہ
کہ آئندہ رہیے تری خاک رہ

جو اس میں ہے خوش تو تو ہوں میں بھی ساتھ
رہیں گے لب آب ہی آج رات
دل پر کو خالی کریں گے بہم
پھریں گے ترے ساتھ خوش کوئی دم
ہوئے عاقبت سوے دریا رواں
نہ پیدا کسو پر یہ راز نہاں
کہ اک آگ سلگی ہے واں یک کنار
محبت کمیں میں ہے سرگرم کار
کسو اشتعالک کی ہے منتظر
جہاں سر کو کھینچا قیامت ہے پھر
ہوئے ناؤ پر شام گہ جب سوار
کہا ان نے یاں ایک ہے دام دار
جہاں قفل ہو راہ دریا تو وھاں
کفایت ہے اس کی کلید زباں
اسے ساتھ لو تو بھلی بات ہے
کہ دریا میں پھرنا ہے اور رات ہے
لیا آخرالامر ہمرہ اسے
بٹھایا قریب اپنے کہہ کہہ اسے
تنک دور چل کر کیا یہ سوال
مجھے ہے ترے حرف شب کا خیال
کہاں شعلۂ سرکش آتا ہے یاں
کدھر پیچ و تاب آکے کھاتا ہے یاں
کہاں لے ہے دریا پہ اک دم قرار
کدھر مضطرب ہو کرے ہے گذار
ٹھہرتا ہے کس جا وہ آتش فگن
طرف کون سے ہو ہے گرم سخن
یہ صیاد سے تھا ہی محو سراغ
جگر آتش شوق رکھتی تھی داغ
کہ ہوکر فروغ اک سوے آسماں
تڑپنے لگا جیسے آتش بجاں
کوئی دم میں دریا پہ آیا فرود
ہوا نیزہ بالا سبھوں کو نمود
لب آب وہ شعلۂ جاں گداز
تڑپ کر بہت بازبان دراز
پکارا کہاں ہے پرس رام تو
محبت کا ٹک دیکھ انجام تو
کہ میں جملہ تن آتش تیز ہوں
دل گرم سے شعلہ انگیز ہوں
بھڑکتی ہے جب آگ دل کی مرے
لب آب اتروں ہوں غم میں ترے
مگر سوزش دل ہو کم آب سے
بجھے جی مرا اس تب و تاب سے
سو یہ آب رکھتا ہے روغن کا کام
کیا عشق نے آہ دشمن کا کام
یہ بے تاب سن کر ہوا بے قرار
سفینے سے اترا بصد اضطرار
ہوا ہمدم اس آتش انگیز سے
کہا اس بلاے دل آویز سے
کہ میں ہوں پرس رام خانہ خراب
مرا دل بھی اس آگ سے ہے کباب
مرے بھی جگر میں یہی سوز ہے
یہی مجھ کو جلنا شب و روز ہے
محبت تری برق خرمن ہوئی
تری دوستی جی کی دشمن ہوئی
سخن مختصر کچھ وہ شعلہ چلا
کچھ اک اپنی جاگہ سے یہ دل جلا
بہم گرم جوشی سے یک جا ہوئے
کہ گذری تھی مدت بھی تنہا ہوئے
وہ شعلہ رہا ایک جا مشتعل
کہے تو تسلی ہوئے جان و دل
یکایک بھڑک کر وہ جلنے لگا
پھر ایدھر ادھر پھرنے چلنے لگا
کیا پاس پانی کے آکر صعود
رہی روشنی سی کوئی دم نمود
پھر آگے کسو پر نہ پیدا ہوا
نہ جانا کہ وہ شعلہ پھر کیا ہوا
خبردار ہو اہل کشتی تمام
لگے کہنے باہم نہیں پرس رام
اٹھے ڈھونڈنے ہوکے سب ناصبور
کنارے پہ دریا کے نزدیک و دور
نہ پایا کہیں اس کو حیراں ہوئے
نہایت ہی خاطر پریشاں ہوئے
وہ صیاد بولا کہ دوں میں نشاں
گیا تھا سوے شعلہ یہ نوجواں
یہ اور آگ دونوں ہوئے ہم سخن
وہ شعلہ ہوا اس پہ آتش فگن
یہ جوشش تو یاں سے تھی مدنظر
پھر آگے نہیں اس کی مجھ کو خبر
نہ ہو آتش غم سے پہلے ہی داغ
چلو اس طرف کو جو نکلے سراغ
گئے مضطرب حال سارے رواں
تڑپتا تھا وہ شعلہ آکر جہاں
تلاش اس کی کی اور لے لے کے نام
پکارے بہت پر کہاں پرس رام
محبت نے ایسا کھپایا اسے
کہ ہرگز کنھوں نے نہ پایا اسے
یقینی ہوا یہ کہ وہ تیز آگ
اسی نیم کشتہ سے رکھتی تھی لاگ
لپٹ اس کو شعلہ ہی وہ لے گیا
عجب طور کا داغ یہ دے گیا
پھرے خوار ہو ہو کے ناچار سب
کسی کو تحیر کسی کو عجب
کوئی منفعل ساتھ آنے سے تھا
کوئی بر لب آب جانے سے تھا
خصوصاً وہ عاشق ہوا پرخجل
ندامت ہوئی یہ جسے متصل
نہ تھا اگلی خجلت ہی سے روے حرف
ہوا دوسرا ماجراے شگرف
تفکر کے دریا میں ڈوبا ہوا
کنارے پہ بیٹھا تھا روتا ہوا
کہ پوچھیں گے جو اس کے واماندگاں
تو یہ واقعہ کیا کروں گا بیاں
کہوں کیونکے یک بار وہ جل گیا
کف خاک ہو خاک میں رل گیا
کھنچی جرم کو بے گناہی مری
ہوئی شہر میں روسیاہی مری
وہ شعلہ جلاتا مجھے کاش کے
لیے ساتھ جاتا مجھے کاش کے

مقولۂ شاعر

اگر ہے یہ قصہ بھی حیرت فزا
ولے میرؔ یہ عشق ہے بدبلا
بہت جی جلائے ہیں اس عشق نے
بہت گھر لٹائے ہیں اس عشق نے
فسانوں سے اس کے لبالب ہے دہر
جلائے ہیں اس تند آتش نے شہر
محبت نہ ہو کاش مخلوق کو
نہ چھوڑے یہ عاشق نہ معشوق کو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.