شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی
شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی
جوڑے کی گندھاوٹ قہر خدا بالوں کی مہک پھر ویسی ہی
آنکھیں ہیں کٹورا سی وہ ستم گردن ہے صراحی دار غضب
اور اسی میں شراب سرخی پاں رکھتی ہے جھلک پھر ویسی ہی
ہر بات میں اس کی گرمی ہے ہر ناز میں اس کے شوخی ہے
قامت ہے قیامت چال پری چلنے میں پھڑک پھر ویسی ہی
گر رنگ بھبوکا آتش ہے اور بینی شعلۂ سرکش ہے
تو بجلی سی کوندے ہے پری عارض کی چمک پھر ویسی ہی
نوخیز کچیں دو غنچہ ہیں ہے نرم شکم اک خرمن گل
باریک کمر جو شاخ گل رکھتی ہے لچک پھر ویسی ہی
ہے ناف کوئی گرداب بلا اور گول سریں رانیں ہیں صفا
ہے ساق بلوریں شمع ضیا پاؤں کی کفک پھر ویسی ہی
محرم ہے حباب آب رواں سورج کی کرن ہے اس پہ لپٹ
جالی کی کرتی ہے وہ بلا گوٹے کی دھنک پھر ویسی ہی
وہ گائے تو آفت لائے ہے ہر تال میں لیوے جان نکال
ناچ اس کا اٹھائے سو فتنے گھنگرو کی جھنک پھر ویسی ہی
ہر بات پہ ہم سے وہ جو ظفرؔ کرتا ہے لگاوٹ مدت سے
اور اس کی چاہت رکھتے ہیں ہم آج تلک پھر ویسی ہی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |