شوق دیتا ہے مجھے پیغام عشق
شوق دیتا ہے مجھے پیغام عشق
ہاتھ میں لبریز لے کر جام عشق
آپ ہوں ذوق اسیری سے خراب
کوئی لے جائے مجھے تا دام عشق
اشتیاق سجدہ سے بیتاب ہوں
اے حریم کعبۂ اسلام عشق
قیس و وامق سے کہاں اب اہل دل
تھا انہیں لوگوں سے روشن نام عشق
نعش پر فرہاد کے شیریں گئی
وہ ستم پروردۂ آلام عشق
اور یوں کرنے لگی رو کر خطاب
اے وفا کی جان اے ناکام عشق
تجھ سے رونق آشنا ہے صبح شوق
تجھ سے زینت آفریں ہے شام عشق
جان دے کر تو تو چھوٹا رنج سے
رہ گئی میں ہی بلا آشام عشق
تیرا مرنا عشق کا آغاز تھا
موت پر ہوگا مرے انجام عشق
وحشتؔ وحشی کہ تھا سب سے الگ
ہو گیا کیا بے تکلف رام عشق
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |