شوق راتوں کو ہے درپئے کہ تپاں ہو جاؤں
شوق راتوں کو ہے درپئے کہ تپاں ہو جاؤں
رقص وحشت میں اٹھوں اور دھواں ہو جاؤں
ساتھ اگر باد سحر دے تو پس محمل یار
اک بھٹکتی ہوئی آواز فغاں ہو جاؤں
اب یہ احساس کا عالم ہے کہ شاید کسی رات
نفس سرد سے بھی شعلہ بجاں ہو جاؤں
لا صراحی کہ کروں وہم و گماں غرق شراب
اس سے پہلے کہ میں خود وہم و گماں ہو جاؤں
وہ تماشا ہوں ہزاروں مرے آئینے ہیں
ایک آئینے سے مشکل ہے عیاں ہو جاؤں
شوق میں ضبط ہے ملحوظ مگر کیا معلوم
کس گھڑی بے خبر سود و زیاں ہو جاؤں
ایسا انداز غزل ہو کہ زمانے میں ظفرؔ
دور آئندہ کی قدروں کا نشاں ہو جاؤں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |