شوق سے خود جو مرے راہنما ہوتے ہیں

شوق سے خود جو مرے راہنما ہوتے ہیں
by عابد علی عابد

شوق سے خود جو مرے راہنما ہوتے ہیں
مری قسمت کہ وہی آبلہ پا ہوتے ہیں

لفظ کی بزم پر اسرار میں خوبان خیال
کبھی مستور کبھی چہرہ کشا ہوتے ہیں

شعر کے روپ میں ڈھلتے نہیں وہ ہنگامے
جو مری بزم تصور میں بپا ہوتے ہیں

اب یہ عالم ہے کہ مرنے پہ چلے آئیں جو دوست
وہ بھی من جملۂ ارباب وفا ہوتے ہیں

یہی بت شب کے اندھیرے میں جو ہیں طالب شوق
یہی بت دن کے اجالے میں خدا ہوتے ہیں

کوئی پروانوں کو سمجھاؤ کہ جینے کے سوا
اور بھی چند مقامات وفا ہوتے ہیں

بادہ نوشی پہ مصر بادہ فروشی پہ خفا
محو حیرت ہوں کہ یہ لوگ بھی کیا ہوتے ہیں

شرع و آئیں کی ہر اک آڑ میں کرتے ہیں سوال
یہ جو زرتار قباؤں میں گدا ہوتے ہیں

کیا بتائیں تجھے کیوں ہوتے ہیں اس بن بے چین
ناصحا تنگ نہ کر کہہ جو دیا ہوتے ہیں

مجھے بیتی ہوئی راتوں کی مہک آتی ہے
ہجر کے دن بھی تری زلف رسا ہوتے ہیں

لب پہ ہوتی ہوئی آنکھوں میں ہنسی جاتی ہے
اے بتو پیار کے انداز جدا ہوتے ہیں

مرے گلشن میں جو پابند قفس ہیں وہ طیور
دیدہ ور شعلہ زباں نغمہ سرا ہوتے ہیں

نظر آتے ہیں جہاں خون کے دریا جاری
تہ میں دیوانوں کے نقش کف پا ہوتے ہیں

شعر سن کر مرے ہنستے ہیں کہ عاشق ہے کہیں
یعنی خوبان ستم پیشہ بلا ہوتے ہیں

قرض جتنے غم دوراں کے ہیں مجھ پر عابدؔ
غم جاناں کے وسیلے سے ادا ہوتے ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse