شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
ساری امیدیں ٹوٹ گئیں دل بیٹھ گیا جی چھوٹ گیا
فصل گل آئی یا اجل آئی کیوں در زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
لیجیے کیا دامن کی خبر اور دست جنوں کو کیا کہئے
اپنے ہی ہاتھ سے دل کا دامن مدت گزری چھوٹ گیا
منزل عشق پہ تنہا پہنچے کوئی تمنا ساتھ نہ تھی
تھک تھک کر اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا
اس نے عدو کا سوگ کیا یاں اس سے وفا کی آس بندھی
داغ تمنا رنگ حنا کی دیکھا دیکھی چھوٹ گیا
فانیؔ ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |